وقت نے جب سے اتارا خاک پر
ہو رہے ہیں خوار و رسوا خاک پر
کچھ ہمارے خواب خُفتہ خاک میں
اور کچھ خوابوں کا ملبہ خاک پر
دل کسی جا پر ٹھہرتا ہی نہیں
ہو گئی اس بات پر برہم ہوا
کیوں دِیا ہم نے جلایا خاک پر
نقص تو کوزہ گری میں تھا، مگر
رکھ دیا الزام سارا خاک پر
دل ہمارا بھی تو مشتِ خاک تھا
جس نے جب چاہا گرایا خاک پر
اس گھڑی کوئی تماشائی نہ ہو
جب ہمارا ہو تماشا خاک پر
اتنا تکیہ تو فلک پر بھی نہیں
ہے ہمیں جتنا بھروسا خاک پر
اور خوں پینے کا اِس میں دم نہیں
رحم کر کچھ تو خدایا خاک پر
خاک زادے پوچھتے ہیں اِن دنوں
ہو گا کس دن حشر برپا خاک پر
آسماں پر کیا خبر ہو گی تجھے
ایک دن چھوڑ آسماں، آ، خاک پر
جب کبھی دریا میں اُترے ہم حسنؔ
ایڑیاں رگڑے گا دریا خاک پر
حسن عباس رضا
No comments:
Post a Comment