Wednesday, 3 August 2016

بسوز زخم جگر کیسے ہاؤ ہو کرتے

بسوزِ زخمِ جگر کیسے ہاؤ ہو کرتے

اگر نہ عشق میں ہم ترکِ آرزو کرتے

تمہاری آنکھوں نے بہکا دیا ہمیں ورنہ

کبھی نہ جشنِ شبِ بادہ و سبو کرتے

نہ جانے کتنی نگاہوں سے گر گئے ہوتے

بیاں جو حشر میں ہم وجہِ آرزو کرتے

غرور سے نہ اٹھا اپنا سر، وگرنہ ہم

خود اپنے ہاتھ سے قطعِ رگِ گلو کرتے

وجود ہوتا نہ اے کاش اپنا دنیا میں

نہ صرفِ شرحِ محبت کبھی لہو کرتے

نہ اٹھتا سر سے اگر سایۂ بہار تو ہم

چمن کے پھولوں سے رنگین گفتگو کرتے

ہوا نہ جن سے کبھی میری چشمِ تر کا علاج

وہ میرے چاک گریباں کو کیا رفو کرتے

غبارِ رنج و الم ہر طرف تھا غربت میں

تلاشِ یار بھلا کیوں نہ کو بہ کو کرتے

کسی کے سامنے کیوں ذکرِ اختلافِ نظر

جو بات کرنی تھی بے لاگ روبرو کرتے

جنازہ اٹھ گیا کیوں اعتبارِ ناظرؔ کا

جو دوستوں نے کیا کاش وہ عدو کرتے


عبداللہ ناظر 

No comments:

Post a Comment