Monday, 1 August 2016

شریک گل رہا آوارۂ صبا بھی رہا

شریکِ گل رہا، آوارۂ صبا بھی رہا
اور اپنی ذات کے صحرا میں لا پتا بھی رہا
کیا طویل سفر میں نے راستوں کے بغیر
مگر غبار سے سارا بدن اٹا بھی رہا
ملے ہر ایک سے طعنے سلامتی کے مجھے
کسے خبر کہ میں اندر سے ٹوٹتا بھی رہا
سماعتوں کی ہے مقروض میری گویائی
سخن بلب بھی رہا تشنۂ صدا بھی رہا
کٹی ہے عمر مظفرؔ عجب دوراہے پر
میں اپنے آپ سے خوش بھی رہا خفا بھی رہا

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment