Wednesday, 11 June 2014

کیسی مہک کہاں کا کوئی پھول باغ میں

کیسی مہک کہاں کا کوئی پھول باغ میں
بس رنگِ بے وفائی ہے مقبول باغ میں
آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے نکلنا پڑا مجھے
اک یاد نے اڑائی بہت دھول باغ میں
تتلی کو ڈھلتے دیکھنا جگنو کے رُوپ میں
میرا یہی ہے روز کا معمول باغ میں
جانے وہ حُسن تھا کہ ہوس تھی نگاہ میں
ہر چہرہ لگ رہا تھا مجھے پھول باغ میں
عاصمؔ رسالہ ہائے گل و برگ و بار دیکھ
قدرت نے کھول رکھا ہے سکول باغ میں

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment