Saturday 21 June 2014

تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا

تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا
وہ اک ایسا لمس تھا جس میں بدن شامل نہ تھا
ریت کی دلدل ملی مجھ کو سمندر پار بھی
میں وہاں اترا جہاں ساحل کبھی ساحل نہ تھا
وہ تو اک سازش تھی میرے خون کی میرے خلاف
جس کے سر الزام آیا وہ مرا قاتل نہ تھا
ہم نے کاٹے پیڑ تو سایوں کی یاد آنے لگی
لیکن اب حرفِ ندامت سے بھی کچھ حاصل نہ تھا
سر پہ آ گرتا ہے تکمیل محبت کا پہاڑ
ورنہ اظہار تمنا تو کوئی مشکل نہ تھا
پر لگا کر اڑ گئے آخر مری نیندوں کے ساتھ
پیار کے وہ خواب جن کا کوئی مستقبل نہ تھا
ان سے مل کر یہ بھی دیکھی شعبدہ بازی قتیلؔ
دھڑکنیں موجود تھیں سینے میں لیکن دل نہ تھا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment