Friday 20 June 2014

دنیا میری آباد ہے جس راحت جاں سے

دنیا میری آباد ہے جس راحتِ جاں سے
دیتا ہوں دعائیں اسے دھڑکن کی زباں سے
حیرت سے وفائیں مرا منہ دیکھ رہی ہیں
شیشے کا خریدار ہوں پتھر کی دکاں سے
ایسا وہ کہاں جیسا غزل میں نظر آئے
سب حُسن ہے اس کا مرے اندازِ بیاں سے
تم ہاتھوں کو بیکار کی زحمت سے بچا لو
دستک کا جواب آتا نہیں خالی مکاں سے
رکھے جو قتیلؔ اپنے سمندر کو بچا کر
شکوہ ہے مری پیاس کو اس پیر مغاں سے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment