نئے موسم بڑے بے درد نکلے
ہرے پیڑوں کے پتے زرد نکلے
دلوں کی برف پہنچی عارضوں تک
یہ انگارے بھی کتنے سرد نکلے
وہ کیا تشخیص کرتے میرے غم کی
معالج خود سراپا درد نکلے
کمی تازہ لہو کی بھی ہو شاید
کئی چہرے تو یوں بھی زرد نکلے
وہ اک عورت کی خاطر لڑ رہے ہیں
مِرے احباب پورے مرد نکلے
بہت شہرہ تھا جن کی رہبری کا
وہ میرے قافلے کی گرد نکلے
قتیلؔ آزادیاں جن کو نہ بھائیں
انہیں قوموں کے ہم بھی فرد نکلے
قتیل شفائی
ہرے پیڑوں کے پتے زرد نکلے
دلوں کی برف پہنچی عارضوں تک
یہ انگارے بھی کتنے سرد نکلے
وہ کیا تشخیص کرتے میرے غم کی
معالج خود سراپا درد نکلے
کمی تازہ لہو کی بھی ہو شاید
کئی چہرے تو یوں بھی زرد نکلے
وہ اک عورت کی خاطر لڑ رہے ہیں
مِرے احباب پورے مرد نکلے
بہت شہرہ تھا جن کی رہبری کا
وہ میرے قافلے کی گرد نکلے
قتیلؔ آزادیاں جن کو نہ بھائیں
انہیں قوموں کے ہم بھی فرد نکلے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment