Sunday 1 June 2014

نئے موسم بڑے بے درد نکلے

نئے موسم بڑے بے درد نکلے
ہرے پیڑوں کے پتے زرد نکلے
دلوں کی برف پہنچی عارضوں تک
یہ انگارے بھی کتنے سرد نکلے
وہ کیا تشخیص کرتے میرے غم کی
معالج خود سراپا درد نکلے
کمی تازہ لہو کی بھی ہو شاید
کئی چہرے تو یوں بھی زرد نکلے
وہ اک عورت کی خاطر لڑ رہے ہیں
مِرے احباب پورے مرد نکلے
بہت شہرہ تھا جن کی رہبری کا
وہ میرے قافلے کی گرد نکلے
قتیلؔ آزادیاں جن کو نہ بھائیں
انہیں قوموں کے ہم بھی فرد نکلے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment