Monday 23 June 2014

وہ شے جو ایک نئی دور کی بشارت ہے

وہ شے جو ایک نئی دور کی بشارت ہے
ترے لہو کی تڑپتی ہوئی حرارت ہے
نظامِ کہنہ کے سائے میں عافیت سے نہ بیٹھ
نظامِ کہنہ تو گرتی ہوئی عمارت ہے
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم تری روح سے عبارت ہے
یہ کہہ رہی ہے صدا ٹوٹتے سلاسل کی
کہ زندگی تو فقط اک حسیں جسارت ہے
یہ اک جھلک ہے بدلتے ہوئے زمانوں کی
جبیں جبیں پہ شکن بھی کوئی بجھارت ہے
چمن میں اہلِ چمن کے یہ طور، ارے توبہ
کلی کلی کی ہنسی خندۂ حقارت ہے
دلوں کی جھونپڑیوں میں بھی روشنی اترے
جو یوں نہیں تو یہ سب سیلِ نور اکارت ہے

مجید امجد

No comments:

Post a Comment