Monday 23 June 2014

چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومئے

چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کُو میں گھومیے
پھر کسی کو چاہنے کی آرزو میں گھومیے
شاید اک بھولی تمنا، مٹتے مٹتے جی اٹھے
اور ابھی اس جلوہ زار رنگ و بُو میں گھومیے
روح کے در بستہ سناٹوں کو لے کر اپنے ساتھ
ہمہماتی محفلوں کی ہاؤ ہُو میں گھومیے
کیا خبر، کس موڑ پر مہجور یادیں آ ملیں
گھومتی راہوں پہ، گردِ آرزُو میں گھومیے
زندگی کی راحتیں ملتی نہیں، ملتی نہیں
زندگی کا زہر پی کر جستجُو میں گھومیے
کنجِ دوراں کو نئے اک زاویے سے دیکھیے
جن خلاؤں میں نرالے چاند گھومیں، گھومیے

مجید امجد

No comments:

Post a Comment