Sunday 1 June 2014

جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے

جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے
اک ابر کا ٹکڑا انہیں کیا دے گا دلاسے
مانا کہ ضروری ہے نگہبانی خودی کی
بڑھ جائے نہ انسان مگر اپنی قبا سے
برسوں کی مسافت میں وہ طے ہو نہیں سکتے
جو فاصلے ہوتے ہیں نگاہوں میں ذرا سے
تو خون کا طالب تھا تِری پیاس بجھی ہے؟
میں پاتا رہا نشوونما آب و ہوا سے
مجھ کو تو مِرے اپنے ہی دل سے ہے شکایت
دنیا سے گِلہ کوئی، نہ شکوہ ہے خدا سے
ڈر ہے کہ مجھے آپ بھی گمراہ کریں گے
آتے ہیں نظر آپ بھی کچھ راہنما سے
دم بھر میں وہ زمیں بوس ہو جاتی ہے واصفؔ
تعمیر نکل جاتی ہے جو اپنی بِنا سے

واصف علی واصف​

No comments:

Post a Comment