Monday 2 June 2014

درد کا ثمر: اے دلِ درد آشنا

درد کا ثمر

اے دلِ درد آشنا
خانۂ زنجیر کی خاموشئ کُلفت فزا
جاگتی سڑکوں کے اس شورِ عبث سے کتنی بہتر تھی
کہ جیسے میرے ہی خوابوں کی اک تعبیر ہو
کون سی دنیا سے امڈا ہے

سُلگتی شاہراہوں پر یہ پتھر کے خداؤں کا ہجوم
ہر خدا کے چہرۂ بے حِس پہ
میرے ہی لہو کا رنگ ہے
پھر بھی سب مجھ سے جُدا
یوں اجنبی نظروں سے تکتے ہیں مجھے
جیسے میرے اور ان کے درمیاں رشتہ کوئی باقی نہیں
کون سے معبد میں وہ بُت ہے
کہ جس کے خون میں
تیری دھڑکن گھل گئی
دیکھ اس سیلِ عبث کے شورِ بے مقصد کی ہر موجِ رواں
تیرے دکھ
تیری صدا سے بے نیاز
کور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تکتی ہے تجھے
جیسے ناخواندہ کوئی
صفحۂ قرطاس پر پھیلی ہوئی تحریر کو دیکھے
مگر اس دکھ سے بے گانہ رہے
جو نہاں ہر لفظ کے سینے میں ہے
اس بھرے بازار میں
ایک ناخواندہ ورق بن کر سُلگنا
خواہشِ اظہارِ غم کی ہے سزا
اے دلِ درد آشنا
اے دلِ درد آشنا

احمد شمیم

No comments:

Post a Comment