Sunday 1 June 2014

گہرائیوں میں ذہن کی گرداب سا رہا

گہرائیوں میں ذہن کی گرداب سا رہا
ساحل پہ بھی کھڑا ہوا غرقاب سا رہا
بے نام سی اک آگ جلاتی رہی مجھے
خوں کے بجائے جسم میں تیزاب سا رہا
خالی وجود ہی لئے پِھرتا رہا، مگر
کاندھوں پر عمر بھر مِرے اسباب سا رہا
نغمے بکھیرتا رہا احساسِ تلخ بھی
خامہ بھی میرے ہاتھ میں مِضراب سا رہا
اشکوں میں اس کے حُسن کی لَو تیرتی رہی
پانی کے آسمان پہ مہتاب سا رہا
کام آئی شاعری بھی مظفرؔ کے کس قدر
تنہائی میں بھی مجمعِ احباب سا رہا

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment