گہرائیوں میں ذہن کی گرداب سا رہا
ساحل پہ بھی کھڑا ہوا غرقاب سا رہا
بے نام سی اک آگ جلاتی رہی مجھے
خوں کے بجائے جسم میں تیزاب سا رہا
خالی وجود ہی لئے پِھرتا رہا، مگر
کاندھوں پر عمر بھر مِرے اسباب سا رہا
نغمے بکھیرتا رہا احساسِ تلخ بھی
خامہ بھی میرے ہاتھ میں مِضراب سا رہا
اشکوں میں اس کے حُسن کی لَو تیرتی رہی
پانی کے آسمان پہ مہتاب سا رہا
کام آئی شاعری بھی مظفرؔ کے کس قدر
تنہائی میں بھی مجمعِ احباب سا رہا
مظفر وارثی
ساحل پہ بھی کھڑا ہوا غرقاب سا رہا
بے نام سی اک آگ جلاتی رہی مجھے
خوں کے بجائے جسم میں تیزاب سا رہا
خالی وجود ہی لئے پِھرتا رہا، مگر
کاندھوں پر عمر بھر مِرے اسباب سا رہا
نغمے بکھیرتا رہا احساسِ تلخ بھی
خامہ بھی میرے ہاتھ میں مِضراب سا رہا
اشکوں میں اس کے حُسن کی لَو تیرتی رہی
پانی کے آسمان پہ مہتاب سا رہا
کام آئی شاعری بھی مظفرؔ کے کس قدر
تنہائی میں بھی مجمعِ احباب سا رہا
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment