Sunday 1 June 2014

زندگی جس پر ہنسے ایسی کوئی خواہش نہ کی

زندگی جس پر ہنسے ایسی کوئی خواہش نہ کی
گھاؤ سینے میں سجائے، گھر کی آرائش نہ کی
نکتہ چینی پر مری تم اتنے برگشتہ نہ ہو
کہہ دیا جو کچھ بھی دل میں تھا مگر سازش نہ کی
ایک سے حالات نظر آئے ہر دور میں
رک گئے میرے قدم یا وقت نے گردش نہ کی
جھک گیا قدموں پہ تیرے پھر بھی سر اونچا رہا
آنکھ پتھر ہو گئی جلووں کی فرمائش نہ کی
لاکھ نظروں کو اچھالا تُو نہ آیا بام پر
سائے سر پٹخا کیے دیوار نے جُنبش نہ کی
میں نے جن آنکھوں کو سینے میں اتارا پِھر گئیں
خود کو اپنانے کے ڈر سے کبھی کوشش نہ کی
رہ کے محدودِ وسائل، کی مظفرؔ نے بسر
پاؤں پھیلا کر کبھی چادر کی پیمائش نہ کی

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment