Sunday, 15 June 2014

وہ عہد عہد ہی کیا جسے نبھاؤ بھی

وہ عہد عہد ہی کیا جسے نبھاؤ بھی
ہمارے وعدۂ الفت کو بھول جاؤ بھی
بھلا کہاں کے ہم ایسے گمان والے ہیں
ہزار بار ہم آئیں، ہمیں بلاؤ بھی
بگڑ چلا ہے بہت رسمِ خود کشی کا چلن
ڈرانے والو! کسی روز کر دکھاؤ بھی
نہیں کہ عرضِ تمنا پہ مان ہی جاؤ
ہمیں اس عہدِ تمنا میں آزماؤ بھی
فغاں کہ قصۂ دل سن کے لوگ کہتے ہیں
یہ کون سی نئی افتاد ہے، ہٹاؤ بھی
تمہاری نیند میں ڈوبی ہوئی نظر کی قسم
ہمیں یہ ضد ہے کہ جاگو بھی اور جگاؤ بھی

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment