Tuesday 17 June 2014

بلا کی تمکنت سے اب سیاہی بولتی ہے

بلا کی تمکنت سے اب سیاہی بولتی ہے
ہماری چُپ سے شہ پا کر تباہی بولتی ہے
نوائے دیدۂ بینا کو دل ترسے ہوئے ہیں
ہمارے منبروں سے کم نگاہی بولتی ہے
یقیں آتا نہیں ہے اپنے لہجے پر کبھی تو
یہ ہم کب ہیں، ہماری عذر خواہی بولتی ہے
ہمارے پاؤں کی زنجیر بولے یا نہ بولے
ہماری نسبتوں میں بادشاہی بولتی ہے
ہماری خاک پر الفاظ ہی واجب ہوئے ہیں
اِسے ہے بولنا، خواہی نخواہی بولتی ہے

حمیدہ شاہین

No comments:

Post a Comment