Wednesday 11 June 2014

نظر اٹھائیں تو کیا کیا فسانہ بنتا ہے

نظر اٹھائیں تو کیا کیا فسانہ بنتا ہے
سو پیش یار نگاہیں جھکانا بنتا ہے
وہ لاکھ بے خبر و بے وفا سہی، لیکن
طلب کیا ہے گر اس نے تو جانا بنتا ہے
رگوں تلک اتر آئی ہے ظلمتِ شبِ غم
سو اب چراغ نہیں، دل جلانا بنتا ہے
پرائی آگ مِرا گھر جلا رہی ہے سو اب
خموش رہنا نہیں، غُل مچانا بنتا ہے
قدم قدم پہ توازن کی بات مت کیجے
یہ مے کدہ ہے یہاں لڑکھڑانا بنتا ہے
بچھڑنے والے تجھے کس طرح بتاؤں میں
کہ یاد آنا نہیں، تیرا آنا بنتا ہے
یہ دیکھ کر کہ تِرے عاشقوں میں میں بھی ہوں
جمالِ یار! تِرا مسکرانا بنتا ہے
جنوں بھی دکھاوا ہے، وحشتیں بھی غلط
دِوانہ ہے نہیں فارسؔ، دِوانہ بنتا ہے

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment