Wednesday 18 June 2014

روشنی بن کہ ستاروں میں رواں رہتے ہیں

روشنی بن کہ ستاروں میں رواں رہتے ہیں
جسمِ افلاک میں ہم صورتِ جاں رہتے ہیں
ہیں دل دہر میں ہم صورتِ امیدِ نہاں
مثلِ ایماں رُخِ ہستی پہ عیاں رہتے ہیں
جو نہ ڈھونڈو تو ہمارا کوئی مسکن ہی نہیں
اور دیکھو تو قریبِ رگِ جاں رہتے ہیں
ہر نفس کرتے ہیں اک طرفہ تماشا پیدا
ہم سرِ دار بھی تزئینِ جہاں رہتے ہیں
اور بھی اہلِ نظر ہیں، کبھی دیکھو تو سہی
ہم بھی اس شہر میں اے کم نظراں رہتے ہیں
دل کی دھڑکن سے ملا ان کا پتہ کچھ ہم کو
کس کو معلوم تھا ورنہ وہ کہاں رہتے ہیں
وسعتِ دشت نہیں راس چمن زادوں کو
ہم ترے شہر کی جانب نگراں رہتے ہیں
اشک گرتے ہیں تو کچھ دل کو سکون ملتا ہے
ہائے وہ لوگ جو محرومِ فغاں رہتے ہیں
زندگی بھر کا احباب سے اس دشت میں ساتھ
مثلِ جاں رہتے ہیں ہم عرشؔ جہاں رہتے ہیں

عرش صدیقی

No comments:

Post a Comment