Sunday 1 June 2014

موجہ گل کو ہم آواز نہیں کر سکتے

موجۂ گل کو ہم آواز نہیں کر سکتے
دِن تیرے نام سے آغاز نہیں کر سکتے
اس چمن زار میں ہم سبزۂ بیگانہ سہی
آپ کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق کرنا ہے تو پھر سارا اثاثہ لائیں
اس میں تو کچھ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
دکھ پہنچتا ہے بہت دل کو رویے سے تیرے
اور مداوا تیرے الفاظ نہیں کر سکتے
عشق میں یہ بھی کُھلا ہے، کہ اٹھانا غم کا
کارِ دشوار ہے اور بعض نہیں کر سکتے​

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment