Sunday 1 June 2014

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر میرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment