Wednesday 25 June 2014

وہ بت گرفتہ دلوں کا نصیب ہو کر بھی

وہ بُت گرفتہ دلوں کا نصیب ہو کر بھی
کسے ہُوا ہے میسر قریب ہو کر بھی
مِلا ہے یار بھی ہم کو سکونِ دل جیسا
نصیب ہو نہیں سکتا نصیب ہو کر بھی
غروبِ شب ہے کہ خود آگہی ستاروں کی
بجھے بجھے ہیں سحر کے نقیب ہو کر بھی
ہم اپنی ذات میں اک انجمن سے کیا کم تھے
تِری طلب میں جہاں کے رقیب ہو کر بھی
شکستِ جاں بھی وفا چاہتی ہے خوابوں سے
نبھا رہے ہیں تعلق صلیب ہو کر بھی
قلندری میں نہاں ہے سکندری کا مزا
ہم اپنے آپ میں خوش ہیں غریب ہو کر بھی
سعیدؔ ظرف یہی ہے جہانِ حیرت میں
رہے ہیں سادہ روش ہم عجیب ہو کر بھی

سعید خان

No comments:

Post a Comment