کچھ روز سے گھرا ہوا جھوٹے نگوں میں ہے
اب وہ گہر شناس بھی شامل ٹھگوں میں ہے
دنیا لٹا کے دولتِ ایماں سے بھی گیا
شب زندہ دار سویا ہوا رَت جگوں میں ہے
سُقراط کو ملا جو صداقت کے زہر میں
اب وہ نشہ بئیر کے چھلکتے مگوں میں ہے
کہتے رہے ہیں سب جسے جنگل کا بادشاہ
بیٹھا ہوا وہ شیرِ ببر اب سگوں میں ہے
دیکھا ہمیں تو برف بھی لَو دے اُٹھی قتیلؔ
کس نسل کی یہ آگ ہماری رگوں میں ہے
قتیل شفائی
اب وہ گہر شناس بھی شامل ٹھگوں میں ہے
دنیا لٹا کے دولتِ ایماں سے بھی گیا
شب زندہ دار سویا ہوا رَت جگوں میں ہے
سُقراط کو ملا جو صداقت کے زہر میں
اب وہ نشہ بئیر کے چھلکتے مگوں میں ہے
کہتے رہے ہیں سب جسے جنگل کا بادشاہ
بیٹھا ہوا وہ شیرِ ببر اب سگوں میں ہے
دیکھا ہمیں تو برف بھی لَو دے اُٹھی قتیلؔ
کس نسل کی یہ آگ ہماری رگوں میں ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment