Saturday 21 June 2014

کچھ روز سے گھرا ہوا جھوٹے نگوں میں ہے

کچھ روز سے گھرا ہوا جھوٹے نگوں میں ہے
اب وہ گہر شناس بھی شامل ٹھگوں میں ہے
دنیا لٹا کے دولتِ ایماں سے بھی گیا
شب زندہ دار سویا ہوا رَت جگوں میں ہے
سُقراط کو ملا جو صداقت کے زہر میں
اب وہ نشہ بئیر کے چھلکتے مگوں میں ہے
کہتے رہے ہیں سب جسے جنگل کا بادشاہ
بیٹھا ہوا وہ شیرِ ببر اب سگوں میں ہے
دیکھا ہمیں تو برف بھی لَو دے اُٹھی قتیلؔ
کس نسل کی یہ آگ ہماری رگوں میں ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment