Monday 16 June 2014

نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے

نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کِس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
ہم کہ دونوں کے گرفتار رہے، جانتے ہیں
دامِ دنیا سے کہیں زلف کا جال اچھا ہے
میں نے پوچھا تھا کہ آخر یہ تغافل کب تک
مسکراتے ہوئے بولے کہ سوال اچھا ہے
دِل نہ مانے بھی تو ایسا ہے کہ گاہے گاہے
یارِ بے فیض سے ہلکا سا ملال اچھا ہے
لذتیں قرب و جدائی کی ہیں اپنی اپنی
مستقل ہجر ہی اچھا، نہ وصال اچھا ہے
رہروانِ رہِ الفت کا مقدر معلوم
اُن کا آغاز ہی اچھا نہ مآل اچھا ہے
دوستی اپنی جگہ، پر یہ حقیقت ہے فرازؔ
تیری غزلوں سے کہیں تیرا غزال اچھا ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment