Wednesday 11 June 2014

عشق سچا ہے تو کیوں ڈرتے جھجکتے جاویں

عشق سچا ہے تو کیوں ڈرتے جھجکتے جاویں
آگ میں بھی وہ بلائے تو لپکتے جاویں
کیا ہی اچھا ہو کہ گِریہ بھی چلے، سجدہ بھی
میرے آنسو، تِرے پیروں پہ ٹپکتے جاویں
تُو تو نعمت ہے سو شُکرانہ یہی ہے تیرا
پلکیں جھپکائے بِنا ہم تجھے تکتے جاویں
دَم ہی لینے نہیں دیتے ہیں خد و خال ترے
دَم بہ دَم اور ذرا اور دمکتے جاویں
توڑنے والے کسی ہاتھ کی امید پہ ہم
کب تلک شاخِ غمِ ہجر پہ پکتے جاویں
شیرخواروں کے سے بے بس ہیں ترے عشق میں ہم
بول تو سکتے نہیں، روتے بلکتے جاویں
اب تو ٹھہرا ہے یہی کام ہمارا شب و روز
دُور سے دیکھیں تجھے اور بہکتے جاویں
عشق زادوں سے گزارش ہے کہ جاری رہے عشق
بَکنے والوں کو تو بَکنا ہے، سو بَکتے جاویں
اس کے رُخسار بھی شعلوں کی طرح ہیں، یعنی
دہک اُٹھیں تو بہت دیر دہکتے جاویں
فارسؔ اک روز اِسی عطر سے مہکے گا وہ شخص
آپ چُپ چاپ فقط جان چھڑکتے جاویں

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment