Sunday, 8 June 2014

تلاش: آج کیوں میرے شب و روز ہیں محروم گداز

تلاش

آج کیوں میرے شب و روز ہیں محرومِ گداز
اے مری روح کے نغمے، مرے دل کی آواز
اک نہ اک غم ہے نشاطِ سحر و شام کے ساتھ
اور اس غم کا مفہوم نہ مقصد نہ جواز
میں تو اقبال کی چوکھٹ سے بھی مایوس آیا
میرے اشکوں کا مداوا، نہ بدخشاں نہ حجاز
چند لمحوں سے یہ خواہش کہ دوامی بن جائیں
ایک مرکز پہ رہے سرخ لہو کی ہلچل
کبھی ہر گام پہ ٹھوکر، کبھی منزل کا حریف
اے جہانِ گزاراں ایک سے انداز پہ چل
دن کو مہکا ہوا بن، شام کو تپتی ہوئی ریت
زندگی ایسے طلسمات کے حلقے سے نکل
کہیں حد درجہ لگاوٹ کہیں آہٹ سے گریز
دلِ محبوب نما اور سنبھل اور سنبھل
اور کبھی یہ، کہ اگر ایک پلک بھی ٹھہرے
کوئی لمحہ تو ہر اک سانس گراں ہو جائے
اگر اک گلشنِ بے خار رہے دامنِ وقت
یہ جہانِ گزراں ریگِ رواں ہو جائے
ایسا مذہب کہ خود اس وجہِ تعالیٰ سے گریز
ایسا الحاد کہ سجدے میں نہاں ہو جائے
اے مری روح کے نغمے، مرے دل کی آواز
لطفِ شب تاب یہی رقصِ شرر ہو شاید
منزلیں پاس سے بھی دور رہا کرتی ہیں
جستجو حاصل و عرفانِ سفر ہو شاید
کوئی الحاد میں نازاں کوئی ایمان میں گم
کبھی اس دیدۂ و دل کی بھی سحر ہو شاید
میرے غم ہی میں نہاں ہو نئے سورج کی کرن
کم نگاہی میں ہی پوشیدہ نظر ہو شاید

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment