ہری رُتوں کی صدا پہ
ہری رُتوں کی صدا پہ ہم اپنے گھر سے نکلے
تو ساری یادوں کا سر برہنہ جلوس
میلے لباس کی طرح تن سے اترا
سفر کے پہلے قدم میں دیکھا
تو رنج و راحت کے زاویئے سب بدل گئے تھے
ابد صفت مامتا کے آنگن کی سر برہنہ پکار
گزرے دنوں کی ساری حکایتیں
سب بچھڑنے والوں کو سونپ دی تھیں
بچھڑنے والے امانتوں کے عذاب میں تھے
بچھڑنے والوں کی واپسی کے سراب میں تھے
بچھڑنے والو
مری صدا شہرِ سبز پرچم سے جب بھی سننا
ابد صفت مامتا سے کہنا
کہ میرے کمرے میں میرے کپڑوں کی دھول جھاڑے
مری کتابوں میں میرے ہاتھوں کے نقش دیکھے
خموش آنگن میں اگتے پیڑوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر پکارے
کہ آؤ! اب شام ہو گئی ہے
ہری رُتوں کی صدا پہ
سرسوں کا گیت کھیتوں میں بجھ چکا ہے
ہوا کی دوشیزہ دھوپ کا جسم
نیم بیدار خوشبوؤں میں نہا چکا ہے
احمد شمیم
No comments:
Post a Comment