Friday 20 June 2014

ہواؤں کی زبانی سن لیا ہو گا ستاروں نے

ہواؤں کی زبانی سُن لیا ہو گا ستاروں نے
سندیسہ جو تجھے بھیجا ترے فرقت کے ماروں نے
وہ آنکھیں جو وضاحت کے سبھی انداز رکھتی تھیں
یہ کیا ابہام پیدا کر دیا ان کے اشاروں نے
کہا اِک تجربے نے، دیکھ یہ ہوتی ہے مجبوری
گلے سے پتھروں کو جب لگایا آبشاروں نے
پہننے کو دیا آخر لبادہ خشک پتوں کا
خزاں کو ایک سوتیلی بہن سمجھا بہاروں نے
نظر آیا ہر اِک تصویر میں وہ آشنا چہرہ
رُلا ڈالا مصور ہم کو تیرے شاہکاروں نے
خدا جس کی زباں سے بولتا تھا، وہ چڑھا سُولی
یہ نظارہ خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہزاروں نے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment