Wednesday 25 June 2014

چل رہا تھا کئی زنجیروں سے وابستہ میں

چل رہا تھا کئی زنجیروں سے وابستہ میں
چھوڑ آیا ہوں تِری چاہ میں ہر رستہ میں
کر دیا عشق نے مستانۂ پرواز مجھے
اُڑ رہا ہوں تِرے اطراف میں پر بستہ میں
گُل بھی اظہارِ محبت کے لیے کم نکلے
چار شعروں کا اٹھا لایا ہوں گُلدستہ میں
اک طرف مسند و ایوان تِرے سامنے ہیں
اک طرف میں ہوں، تہی دامن و دل بستہ میں
اب سمجھ آئے پرندوں کے مصائب مجھ کو
کٹ رہا ہے وہ شجر جس سے ہوں وابستہ میں
موسمِ گُل نے ذرا زخم سنوارے تو سعیدؔ
پھر نکل آیا محبت پہ کمر بستہ میں

سعید خان

No comments:

Post a Comment