Monday 16 June 2014

کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا

کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں‌ کہا
ہم اہلِ صِدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں‌ کہا
آشوبِ‌ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں‌ کہا
ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی یہی گماں‌ ہے کہ کافی نہیں کہا
بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا
پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف، دل کے منافی نہیں کہا
اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فرازؔ
عادت کو اس کی وعدہ خلافی نہیں کہا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment