Monday 23 June 2014

سر بام؛ لو آ گئی وہ سر بام مسکراتی ہوئی

سرِ بام

لو آ گئی وہ سرِ بام مسکراتی ہوئی
لئے اچٹتی نگاہوں میں اک پیامِ خموش
یہ دھندلی دھندلی فضاؤں میں انعکاسِ شفق
یہ سُونا رستہ ، یہ تنہا گلی ، یہ شامِ خموش
گلی کے موڑ پہ اک گھر کی مختصر دیوار
بِچھا ہے جس پہ دھندلکوں کا ایک دامِ خموش
یہ چھت کسی کے سلیپر کی چاپ سے واقف
کسی کے گیتوں سے آباد یہ مقامِ خموش
کسی کے ہونٹوں کے اعجاز سے یہ چاروں طرف
تبسموں کے ضیا پاروں کا خرامِ خموش
کسی کے مدھ بھرے نینوں سے یہ برستا خمار
کسی کی نقرئی باہوں کا یہ سلامِ خموش
منڈیر پر بصد انداز کہنیاں ٹیکے
کھڑی ہوئی ہے کوئی شوخ لالہ فامِ خموش
لئے اچٹتی نگاہوں میں اک پیامِ خموش

مجید امجد

No comments:

Post a Comment