Wednesday, 18 June 2014

ترتیب نو سے بدلا نہ مے خانے کا نظام

ترتیبِ نو سے بدلا نہ مے خانے کا نظام
جو پہلے تشنہ کام تھے اب بھی ہیں تشنہ کام
آئینِ گلستاں میں تغیّر یہ کم ہے کیا؟
کانٹے بنے ہوئے ہیں گل و لالہ کے امام
آزاد زندگی کہاں اپنے نصیب میں
کل انکے تھے غلام تو آج آپکے غلام
وہ بھی ہیں میری بادہ گساری پہ معترض
اِنسان کے لہو سے ہیں لبریز جن کے جام
اب تک وہی قفس ہے وہی ظلمتوں کا دَور
یہ صبحِ حرّیت ہے کہ محکومیت کی شام
ذہنوں کے انقلاب سے بنتی ہے زندگی
مردہ خیال و فکر کو دے زیست کا پیام
برسوں کے اضطراب سے جو لٹ چکی ہے اب
اے دستِ مصلحت اِسی زنجیر کو نہ تھام
انسانیت کے نام پہ جو بھینٹ چڑھ گیا
فارغؔ ہزار بار ہو اِس روح پر سلام

فارغ بخاری

No comments:

Post a Comment