Monday, 2 June 2014

نہ ولولے وہ رہے اور نہ وہ زمانہ رہا

نہ ولولے وہ رہے اور نہ وہ زمانہ رہا
سماں حیات کا لیکن صدا سہانا رہا
غزل حرام ہوئی اور حسن پر لگے پہرے
میرا مزاج مگر پھر بھی شاعرانہ رہا
خدا بھی مان لیا، بندگی بھی کی اس کی
تعلق اس سے مگر اپنا غائبانہ رہا
لکھا ہوا تھا میرا ماضی جس کے تنکوں پر
میری اڑان میں حائل وہ آشیانہ رہا
پروں کے ڈھیر لگے ہیں وہاں وہاں اب بھی
جہاں جہاں کسی پنچھی کا آشیانہ رہا
کہیں کہیں کوئی راحت، کہیں کہیں کوئی زخم
میرے نصیب کا منظر وہی پرانا رہا
قتیلؔ ترکِ مراسم وہ کر گیا پھر بھی
سلوک اس کا میرے ساتھ دوستانہ رہا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment