Sunday 1 June 2014

ہر لمحہ تیری یاد کی خوشبو ہے میرے پاس

ہر لمحہ تیری یاد کی خُوشبُو ہے میرے پاس
اس شہر میں تنہا ہوں مگر تُو ہے میرے پاس
جس شکل کو چاہوں تیری تصویر میں بدل دوں
یہ حُسنِ تصور ہے کہ جادُو ہے میرے پاس
رکھتا ہے سدا جو میری راتوں کو معطر
وہ تیرے بدن کا گلِ خُوشبُو میرے پاس
کیسے مجھ کو پسند آئیں گے اس شہر کے نغمے
تُو ہے میری کوئل تیری کُو کُو ہے میرے پاس
کیوں تھاموں گا جان! میں کسی اور کی بانہیں
پہنے ہوئے کنگن تیرے بازُو ہیں میرے پاس
جب چاہوں قتیلؔ اس کے نگر تک مجھے لے جائیں
سوچوں کا چمکتا ہوا جگنُو ہے میرے پاس

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment