اس نے نرم کلیوں کو روند روند پاؤں سے
تازگی بہاروں کی چھین لی اداؤں سے
بھیج اپنے لہجے کی نرم گرم کچھ تپش
برف کب پگھلتی ہے، چاند کی شعاعوں سے
پاؤں میں خیالوں کے، راستے بچھائے ہیں
دور دور رہتی ہے ایک غمزدہ لڑکی
ہجرتوں کی راہوں سے، وصل کی سراؤں سے
تیرے جسم کی خوشبو، شام کی اداسی میں
موتیے کے پھولوں نے چھین لی ہواؤں سے
پیار کی کہانی میں سچ اگر ملے نیناںؔ
عمر باندھ لیتی ہیں لڑکیاں وفاؤں سے
فرزانہ نیناں
No comments:
Post a Comment