Saturday, 30 March 2013

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے
وہ ماہ رُخ جو لبِ بام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
بِٹھا دیا مجھے دریا کے اس کنارے پر
جِدھر حبابِ تہی جام بھی نہیں آتا
چُرا کے خواب وہ آنکھوں کو رِہن رکھتا ہے
اور اس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا

غلام محمد قاصر

No comments:

Post a Comment