رتجگے کرتی ہوئی پاگل ہوا کچھ ٹھہر جا
میں جلا لوں پیار کی مشعل ہوا کچھ ٹھہر جا
دستکوں کو ہاتھ تک جانے کا موقعہ دے ذرا
چلمنوں میں جھانکتی بیکل ہوا کچھ ٹھہر جا
آرزو کے کچھ ستارے اور ٹانکوں گی ابھی
توڑ دیتی ہیں چٹانیں الفتوں کی نرمیاں
تند خوئی چھوڑ، بن کومل ہوا کچھ ٹھہر جا
کچے خوابوں کے گھروندوں کو ذرا پکنے تو دے
ہو چکیں اٹھکیلیاں چنچل ہوا کچھ ٹھہر جا
پیار کا ساون کبھی برسات سے پہلے بھی لا
دیکھ کتنے پیڑ ہیں گھائل ہوا کچھ ٹھہر جا
روٹھے نیناںؔ مان جائیں کچھ جتن اس کا بھی کر
ہلکے ہلکے آ کے پنکھا جھل، ہوا کچھ ٹھہر جا
فرزانہ نیناں
No comments:
Post a Comment