نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے
جبیں پہ آنے نہ دیتے تھے اِک شِکن بھی کبھی
اگرچہ دل میں ہزاروں ملال رکھتے تھے
خوشی اسی کی ہمیشہ نظر میں رہتی تھی
بس اشتیاقِ تکلم میں بارہا ہم لوگ
جواب دل میں زبان پر سوال رکھتے تھے
اسی سے کرتے تھے ہم روز و شب کا اندازہ
زمیں پہ رہ کو سورج کی چال رکھتے تھے
جنُوں کا جام محبت کی مے، خِرد کا خُمار
ہمیں تھے وہ جو یہ سارے کمال رکھتے تھے
چھپا کے اپنی سِسکتی سُلگتی سوچوں سے
محبتوں کے عروج و زوال رکھتے تھے
کچھ ان کا حسن بھی ماوراء مِثالوں سے
کچھ اپنا عشق بھی ہم بے مِثال رکھتے تھے
خطا نہیں جو کِھلے پھول راہِ صرصر میں
یہ جرم ہے کہ وہ فکرِ مآل رکھتے تھے
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment