Wednesday, 27 March 2013

چراغ عشق تو جانے کہاں رکھا ہوا ہے

چراغِ عشق تو جانے کہاں رکھا ہوا ہے
سرِ محرابِ جاں بس اک گماں رکھا ہوا ہے
ہوائے شام اڑتی جا رہی ہے راستوں پر
ستارہ ایک زیرِ آسماں رکھا ہوا ہے
یہی غم تھا کہ جس کی دھوم دنیا میں مچی تھی
یہی غم ہے کہ جس کو بے نشاں رکھا ہوا ہے
ہٹے، تو ایک لمحے میں بہم ہو جائیں دونوں
گلہ ایسا دِلوں کے درمیاں رکھا ہوا ہے
تِری نظریں، تِری آواز، تیری مسکراہٹ
سفر میں کیسا کیسا سائباں رکھا ہوا ہے
لرزتا ہے بدن اس تند خواہش کے اثر سے
کہ اک تنکہ سرِ آبِ رواں رکھا ہوا ہے
مُصر ہے جس کو میرا باغباں ہی کاٹنے پر
اک ایسی شاخ پر یہ آشیاں رکھا ہوا ہے
کہیں کوئی ہے انبارِ جہاں سر پر اٹھائے
کہیں، پاؤں تلے سارا جہاں رکھا ہوا ہے
الاؤ جل رہا ہے مدتوں سے داستاں میں
اور اس کے گرد کوئی کارواں رکھا ہوا ہے
رکی جاتی ہے ہر گردش زمین و آسماں کی
مِرے دل پر وہ دستِ مہرباں رکھا ہوا ہے

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment