مرے قریب ہی گو زرد شال رکھی ہے
بدن پہ میں نے مگر برف ڈال رکھی ہے
سنائی دی وہی آواز سبز پتّوں سے
کسی کی یاد ہوا نے سنبھال رکھی ہے
بھٹک بھٹک گئی سسّی تھلوں کے ٹیلے پر
ہمارے دل پہ محبت کا وار اچانک تھا
رکھی ہی رہ گئی جس جا پہ ڈھال رکھی ہے
رہیں گے نام وہ پیڑوں پہ نقش صدیوں تک
چڑھا کے جن پہ بہاروں نے چھال رکھی ہے
کلائیوں میں کھنک کر رگّوں کو کاٹا ہے
کہ چوڑیوں نے ستم کی بھی چال رکھی ہے
تلاش بستی میں کرتا ہے جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نے پال رکھی ہے
میں تکتی رہتی ہوں اس سایہ دار برگد کو
گھنیری زلف کی اس میں مثال رکھی ہے
رہِ یقیں پہ قدم اٹھ نہیں سکا نیناںؔ
گماں نے پاؤں میں زنجیر ڈال رکھی ہے
فرزانہ نیناں
No comments:
Post a Comment