Thursday, 28 March 2013

نہ سہی گر نہیں ملتی کوئی آسائش دل

نہ سہی، گر نہیں ملتی کوئی آسائشِ دل
ہم تو اس شخص سے کرتے نہیں فرمائشِ دل
اس کی یادوں کے گلاب، اس کی تمنا کا چراغ
ایک مدت سے یہ ہے صورتِ آرائشِ دل
ایک مضراب سے بج اٹھتا ہے سازینۂ جاں
ایک تصویر سے ہو جاتی ہے زیبائشِ دل
توُ کہاں چھایا ہے، پھیلا ہے زمانہ کتنا
اِس نظر سے کبھی کی ہی نہیں پیمائشِ دل
اس سے کیا شکوۂ محرومئِ یک لطفِ بدن
جس کو معلوم نہیں معنئ آسائشِ دل
اتنے وقت، اتنےعناصر سے بنا ہے یہ جہاں
کوئی بتلائے کہ کیونکر ہوئی پیدائشِ دل
راحتِ جاں سے گئے، اسکے بھی امکاں سے گئے
وہ جو ہوتی تھی کسی وقت میں فہمائشِ دل
یہ بجا ہے، نظر انداز کریں جسم کی بات
کوئی ٹالے گا کہاں تک بھلا فرمائشِ دل؟

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment