کتنے جاں سوز مراحل سے گزر کر ہم نے
اس قدر سلسلۂ سود و زیاں دیکھے ہیں
رات کٹتے ہی بکھرتے ہوئے تاروں کے کفن
جھُومتی صبح کے آنچل میں نہاں دیکھے ہیں
جاگتے ساز، دمکتے ہوئے نغموں کے قریب
ڈوبنے والوں کے ہمراہ بھنور میں رہ کر
دیکھنے والوں کے اندازِ بیاں دیکھے ہیں
مدتوں اپنے دلِ زار کا ماتم کر کے
خود سے بڑھ کر بھی کئی سوختہ جاں دیکھے ہیں
موت کو جن کے تصوّر سے پسینہ آ جائے
زیست کے دوش پہ وہ بار گراں دیکھے ہیں
تب کہیں جا کر ان اشعار کے گہوارے میں
اِک بصیرت کے ہمکنے کے نشاں دیکھے ہیں
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment