عمر گزری جس کا رستہ دیکھتے
آ بھی جاتا وہ تو ہم کیا دیکھتے
کیسے کیسے موڑ آئے راہ میں
ساتھ چلتے تو تماشا دیکھتے
قریہ قریہ جتنا آوارہ پھرے
گھر میں رہ لیتے تو دنیا دیکھتے
گر بہا آتے نہ دریاؤں میں ہم
آج ان آنکھوں سے صحرا دیکھتے
خود ہی رکھ آتے دیا دیوار پر
اور پھر اس کا بھڑکنا دیکھتے
جب ہوئی تعمیرِ جسم و جاں تو لوگ
ہاتھ کا مٹی میں کھونا دیکھتے
دو قدم چل آتے اس کے ساتھ ساتھ
جس مسافر کو اکیلا دیکھتے
اعتبار اٹھ جاتا آپس کا جمالؔ
لوگ اگر اس کا بچھڑنا دیکھتے
آ بھی جاتا وہ تو ہم کیا دیکھتے
کیسے کیسے موڑ آئے راہ میں
ساتھ چلتے تو تماشا دیکھتے
قریہ قریہ جتنا آوارہ پھرے
گھر میں رہ لیتے تو دنیا دیکھتے
گر بہا آتے نہ دریاؤں میں ہم
آج ان آنکھوں سے صحرا دیکھتے
خود ہی رکھ آتے دیا دیوار پر
اور پھر اس کا بھڑکنا دیکھتے
جب ہوئی تعمیرِ جسم و جاں تو لوگ
ہاتھ کا مٹی میں کھونا دیکھتے
دو قدم چل آتے اس کے ساتھ ساتھ
جس مسافر کو اکیلا دیکھتے
اعتبار اٹھ جاتا آپس کا جمالؔ
لوگ اگر اس کا بچھڑنا دیکھتے
جمال احسانی
No comments:
Post a Comment