Thursday, 28 March 2013

کوئی بھی فرق نہ منظر میں پڑا میرے بعد

کوئی بھی فرق نہ منظر میں پڑا میرے بعد
شام کا چہرہ ہی اُترا تھا ذرا میرے بعد
لوگ مصروف رہے، شہر رہا پُر رونق
صرف خاموشی رہی نوحہ سرا میرے بعد
خوابِ خوشرنگ! مِری چشم کو مت چھوڑ، تجھے
کون دیکھے گا مِری طرح، بھلا میرے بعد
اشک تھے آنکھ میں یا پھر کوئی حیرانی تھی
اس طرح شہر میں وہ پِھرتا رہا، میرے بعد
تجھ پہ کیا گزرے گی اے ہجر کی بجھتی ہوئی شام
جب بھی اس بام پر اک دِیپ جلا میرے بعد
آئینہ توڑ کے دیکھوں، کوئی مجھ سا تو نہیں
کون پھر ہو کے گیا چہرہ نما، میرے بعد
اس طرح پیچھے سے اک موجۂ خوشبو آیا
جیسے اس شاخ پر اک پھول کِھلا میرے بعد
پھر کسی شاخ سے الجھی، نہ ستوں سے لپٹی
دم بخود بیٹھی رہی سرد ہوا، میرے بعد
گِیلے رَستے پہ یہ قدموں کے نشاں کیسے ہیں
مجھ سے پہلے کوئی آیا، کہ گیا، میرے بعد
کام آئے وہ پرندوں سے مراسم اک دن
میرا نغمہ تھا جو دنیا نے سنا میرے بعد
شاعروں نے کبھی افسانہ نگاروں نے لکھی
میری گمنام تمنا کی کتھا میرے بعد
میں نے اس عکس کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
آئینہ سوچ کے حیران ہوا، میرے بعد
کون پہنے گا یہ کانٹوں بھرا پیراہنِ دل
کون اوڑھے گا مِرے غم کی رِدا میرے بعد
اب اگر آ بھی گئی دھوپ تو کیا دیکھے گی
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا میرے بعد
کیسا حیران ہے گلدان میں نرگس کا یہ پھول
میری تصویر کے نزدیک رکھا، میرے بعد
وہ جو لیلیٰ سے تھی منسوب کوئی وحشتِ دل
یہ زمانہ اسے ڈھونڈا ہی کِیا میرے بعد
کیسا خوشرنگ ہے آنسو، کہ نظر آتا ہے
جو کسی آنکھ سے ہرگز نہ بہا میرے بعد
زرد پتوں کی اداسی سے یہی لگتا ہے
باغ میں موسمِ گل بھی نہ رہا میرے بعد
اپنی تخلیق پہ حیراں ہو کہ نازاں ہو، یہی
سوچتا رہ گیا پھر میرا خدا میرے بعد
یہ تو طے ہے کہ مِری روح نہیں مر سکتی
کیسا پہنے گی بھلا جسم نیا میرے بعد

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment