ہوا کے شور کو رکھنا اسیر جنگل میں
میں سن رہی ہوں قلم کی صریر جنگل میں
ہتھیلیوں پہ ہوا سنسناتی پھرتی ہے
میں اسکی چاہ کی ڈھونڈوں لکیر جنگل میں
خیال رکھنا ہے پیڑوں کا خشک سالی میں
دیارِ جاں میں پھرے رات دندناتی ہوئے
ادھر ہے قید سحر کا سفیر جنگل میں
عجیب لوگ ہیں دل کے شکار پر نکلی
کمان شہر میں رکھتے ہیں تیر جنگل میں
طلب کے شہر میں تھا جو سدا قیام پزیر
سنا ہے رہتا ہے اب وہ فقیر جنگل میں
کبھی جو چھو کے گزر جائے نرم سا جھونکا
یہ زلف لے کر اڑائے شریر جنگل میں
بڑے سکون سے رہتے ہیں لوگ بستی کی
رکھی ہے دشت میں غیرت، ضمیر جنگل میں
ہوا میں آج بھی روتی ہے بانسری نیناںؔ
اداس پھرتی ہے صدیوں سے ہیر جنگل میں
فرزانہ نیناں
No comments:
Post a Comment