Thursday, 28 March 2013

ہم نے مانا اس زمانے میں ہنسی بھی جرم ہے

ہم نے مانا اس زمانے میں ہنسی بھی جرم ہے
لیکن اس ماحول میں افسردگی بھی جرم ہے
دشمنی تو خیر ہر صورت میں ہوتی ہے گناہ
اک معین حد سے آگے دوستی بھی جرم ہے
ہم وفائیں کر کے رکھتے ہیں وفاوُں کی امید
دوستی میں اس قدر سوداگری بھی جرم ہے
اس سے پہلے زندگی میں ایسی پابندی نہ تھی
اب تو جیسے خود وجودِ زندگی بھی جرم ہے
آدمی اس زندگی سے بچ کے جائے بھی کہاں
میکشی بھی جرم ہے اور خودکشی بھی جرم ہے
سادگی میں جان دے بیٹھے ہزاروں کوہ کن
آدمی سوچے تو اتنی سادگی بھی جرم ہے
کتنی دیواریں کھڑی ہیں ہر قدم ہر راہ پر
اور ستم یہ ہے کہ شوریدہ سری بھی جرم ہے
ایک ساغر کے لیے جو بیچ دے اپنا ضمیر
ایسے رندوں کے لئے تشنہ لبی بھی جرم ہے
اپنی بے نوری کا ہم اقبالؔ ماتم کیوں کریں
آج کے حالات میں دیدہ وری بھی جرم ہے

اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment