مرجھائے ہوئے جسم سجا کیوں نہیں دیتے
سورج سے بچانے کی ردا کیوں نہیں دیتے
کَن اکھیوں سے دیکھو گے فضاؤں میں کہاں تک
تم سوکھی زمینوں کو دعا کیوں نہیں دیتے
کٹیا میں پلٹ آئے گی سنیاس اٹھائے
ویران روش کو بھی سجاوٹ کی طلب ہے
تم شاخ گلابوں کی لگا کیوں نہیں دیتے
لہروں میں کوئی شور نہ گرداب میں گرمی
سوئی ہوئی ندی کو جگا کیوں نہیں دیتے
جب رنگ اٹھا لے تو برش روک نہ پائے
فنکار کو وہ شکل دکھا کیوں نہیں دیتے
فرزانہ نیناں
No comments:
Post a Comment