Friday, 29 March 2013

ایسا تو نہیں کہ ان سے ملاقات نہیں ہوئی

ایسا تو نہیں کہ ان سے ملاقات نہیں ہوئی 
جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نہیں ہوئی
بہتر یہ ہے کہ وہ تنِ شاداب ادھر نہ آئے 
برسوں سے میرے شہر میں برسات نہیں ہوئی
پیشِ ہوس تھا خوانِ دو عالم سجا ہوا
اس رزق پر مگر گزر اوقات نہیں ہوئی
تیرے بغیر بھی غمِ جاں ہے وہی کہ نہیں
نکلا نہ ماہتاب تو کیا رات نہیں ہوئی
ہم کون پیرِ دلزدگاں ہیں کہ عشق میں
یاراں بڑے بڑوں سے کرامات نہیں ہوئی
کیا سہل اُس نے بخش دیا چشمہ حیات
جی بھر کے سیرِ وادی ظلمات نہیں ہوئی
میرے جنوں کو ایک خرابے کی سلطنت
یہ تو کوئی تلافیِ مافات نہیں ہوئی
اپنا نسب بھی کوئے ملامت میں بار ہے
لاکھ اپنے پاس عزتِ سادات نہیں ہوئی
یاقوت لب تو کارِ محبت کا ہے صِلہ
اُجرت ہوئی حضور یہ سوغات نہیں ہوئی
کب تک یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہو جئیے
اب تک تری طرف سے شروعات نہیں ہوئی

عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment