بڑھتی ہیں دل کی الجھنیں راحت کے ساتھ ساتھ
تنہائیاں بھی ملتی ہیں شہرت کی ساتھ ساتھ
سمجھو ناں کار عشق کو جز وقتی مشغلہ
ممکن نہیں کچھ اور محبت کے ساتھ ساتھ
ہر لمحہ اپنے آپ میں ہے ایک زندگی
کٹتا ہے کب سفر ہی مسافت کے ساتھ ساتھ
ہوتے ہی شام بھیڑ سی کرتے ہیں وسوسے
اور سائے بڑھنے لگتے ہیں وحشت کے ساتھ ساتھ
کیا بے کنار درد ہیں کیا مستقل سوال
اس چار دن کی عارضی مہلت کے ساتھ ساتھ
تعبیر کے دنوں میں ہے خوابوں کی روشنی
رہتی ہے ایک یاد بھی ہجرت کے ساتھ ساتھ
امجدؔ اسی تضاد سے بنتی ہے زندگی
فرقت کا ڈر ہے وصل کی لذت کے ساتھ ساتھ
تنہائیاں بھی ملتی ہیں شہرت کی ساتھ ساتھ
سمجھو ناں کار عشق کو جز وقتی مشغلہ
ممکن نہیں کچھ اور محبت کے ساتھ ساتھ
ہر لمحہ اپنے آپ میں ہے ایک زندگی
کٹتا ہے کب سفر ہی مسافت کے ساتھ ساتھ
ہوتے ہی شام بھیڑ سی کرتے ہیں وسوسے
اور سائے بڑھنے لگتے ہیں وحشت کے ساتھ ساتھ
کیا بے کنار درد ہیں کیا مستقل سوال
اس چار دن کی عارضی مہلت کے ساتھ ساتھ
تعبیر کے دنوں میں ہے خوابوں کی روشنی
رہتی ہے ایک یاد بھی ہجرت کے ساتھ ساتھ
امجدؔ اسی تضاد سے بنتی ہے زندگی
فرقت کا ڈر ہے وصل کی لذت کے ساتھ ساتھ
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment