Sunday, 31 March 2013

بڑھتی ہیں دل کی الجھنیں راحت کے ساتھ ساتھ

بڑھتی ہیں دل کی الجھنیں راحت کے ساتھ ساتھ
تنہائیاں بھی ملتی ہیں شہرت کی ساتھ ساتھ
سمجھو ناں کار عشق کو جز وقتی مشغلہ
ممکن نہیں کچھ اور محبت کے ساتھ ساتھ
ہر لمحہ اپنے آپ میں ہے ایک زندگی
کٹتا ہے کب سفر ہی مسافت کے ساتھ ساتھ
ہوتے ہی شام بھیڑ سی کرتے ہیں وسوسے
اور سائے بڑھنے لگتے ہیں وحشت کے ساتھ ساتھ
کیا بے کنار درد ہیں کیا مستقل سوال
اس چار دن کی عارضی مہلت کے ساتھ ساتھ
تعبیر کے دنوں میں ہے خوابوں کی روشنی
رہتی ہے ایک یاد بھی ہجرت کے ساتھ ساتھ
امجدؔ اسی تضاد سے بنتی ہے زندگی
فرقت کا ڈر ہے وصل کی لذت کے ساتھ ساتھ 

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment