Friday, 29 March 2013

آنکھوں سے پرے نیند کی رفتار میں رہنا

آنکھوں سے پرے نِیند کی رفتار میں رہنا
ہر پل کسی نا دِید کے دِیدار میں رہنا
کھو جانا اسے دیکھ کے عُریاں کے سفر میں
چھوتے ہی اسے حجلۂ اسرار میں رہنا
اِک خوابِ درِیدہ کو رگِ حرف سے سِینا
پِھر لے کے اسے کوچہ و بازار میں رہنا
خود اپنے کو ہی دیکھ کے حیران سا ہونا
نرگس کی طرح موسمِ بیمار میں رہنا
مرنا یونہی ابریشم و کمخواب ہوس میں
دم توڑ کے زندہ کبھی دِیوار میں رہنا
بادل کبھی پُروا کبھی پھولوں سے لپٹنا
ہر لمحہ تیرے آنے کے آثار میں رہنا
حسرت سی لیے خلقتِ معصوم میں پھرنا
سازش کی طرح گردشِ دربار میں رہنا
سرمدؔ تپشِ نارِ سخن میں ہوں کہ مجھ کو
گُل کرتا رہا شعلہ و انگار میں رہنا

سرمد صہبائی

No comments:

Post a Comment