ضبط کرتے رہیں حالِ دلِ مضطر نہ کہیں
یہ بھی ہے پاسِ وفا، تجھ کو ستمگر نہ کہیں
ہم جو کہتے ہیں نشے میں، ہمیں کہہ لینے دو
عین ممکن ہے کہ پھر ہوش میں آ کر نہ کہیں
بات اتنی ہے کہ ہم اذنِ تکلم چاہیں
آپ کے حلقہ نشیں بات بڑھا کر نہ کہیں
گونج اپنی سہی، تائید میں آواز تو ہے
کیوں ترے شہر سے ہم دشت کو بہتر نہ کہیں
میرے احباب کا، اس دور میں معیار ہے یہ
پیٹھ پیچھے جو کہیں، وہ مرے منہ پر نہ کہیں
ذات کے خول میں ہر شخص مقید ہے یہاں
کیا کہیں اس کو اگر عرصۂ محشر نہ کہیں
گرد اتنی ہے کہ پہچان نہ پائیں خود کو
جبر ہے، پھر بھی فضاؤں کو مکدر نہ کہیں
یوں تو اظہارِ غمِ دل کی اجازت ہے ہمیں
شرط یہ بھی ہے کہ پتھر کو بھی پتھر نہ کہیں
ہم ہیں فنکار، مقابر کے مؤرخ تو نہیں
ہم جو محسوس کریں دل میں، وہ کیونکر نہ کہیں
مرتضیٰ برلاس
یہ بھی ہے پاسِ وفا، تجھ کو ستمگر نہ کہیں
ہم جو کہتے ہیں نشے میں، ہمیں کہہ لینے دو
عین ممکن ہے کہ پھر ہوش میں آ کر نہ کہیں
بات اتنی ہے کہ ہم اذنِ تکلم چاہیں
آپ کے حلقہ نشیں بات بڑھا کر نہ کہیں
گونج اپنی سہی، تائید میں آواز تو ہے
کیوں ترے شہر سے ہم دشت کو بہتر نہ کہیں
میرے احباب کا، اس دور میں معیار ہے یہ
پیٹھ پیچھے جو کہیں، وہ مرے منہ پر نہ کہیں
ذات کے خول میں ہر شخص مقید ہے یہاں
کیا کہیں اس کو اگر عرصۂ محشر نہ کہیں
گرد اتنی ہے کہ پہچان نہ پائیں خود کو
جبر ہے، پھر بھی فضاؤں کو مکدر نہ کہیں
یوں تو اظہارِ غمِ دل کی اجازت ہے ہمیں
شرط یہ بھی ہے کہ پتھر کو بھی پتھر نہ کہیں
ہم ہیں فنکار، مقابر کے مؤرخ تو نہیں
ہم جو محسوس کریں دل میں، وہ کیونکر نہ کہیں
مرتضیٰ برلاس
No comments:
Post a Comment