Thursday, 28 March 2013

چہرہ تو کچھ زرد پڑا ہے ایک خیال کے آ جانے سے

چہرہ تو کچھ زرد پڑا ہے ایک خیال کے آ جانے سے
شعر پہ کیسی رونق آئی رنگِ ملال کے آ جانے سے
رَستے پر اِک پتھر ہو، پتھر کے نیچے پھول کِھلا ہو
کوئی بھی حیراں ہو سکتا ہے ایسی مثال کے آ جانے سے
رنج کے بادل گِھر آتے ہیں، خوف کے سائے دَر آتے ہیں
مستقبل کے اندیشوں میں ماضی و حال کے آ جانے سے
کیسے کیسے آئینے تھے، اب زَنگار ہوئے جاتے ہیں
خود آزار ہوئے جاتے ہیں، کیسے زوال کے آ جانے سے
صبر کی سِل تو دل پہ رکھی تھی انجانوں کی اس محفل میں
ضبط کے بندھن ٹُوٹ گئے اِک واقفِ حال کے آ جانے سے
پورا چاند ان ریت کے ذرّوں کو زریاب بنا سکتا ہے
دشت پہ بھی پیار آ سکتا ہے بادِ شمال کے آ جانے سے
کیا بتلائیں اک آنسو میں کیا کیا شامل ہو جاتا ہے
کیا کھو جاتا ہے ہونٹوں پر حرفِ سوال کے آ جانے سے
کیسا شکوہ حرف و لفظ سے برکت کے کم ہو جانے کا
جذب کہاں رہتا ہے خواہشِ منصب و مال کے آ جانے سے
کوئی کرن تو میرے دریچوں کے کالے شیشوں پر اترے
کوئی بتائے، شہر ہے روشن صبحِ جمال کے آ جانے سے
گُل نہ کِھلے تو کون کہے گا موسمِ گُل آیا کہ نہ آیا
وقت نہ بدلا تو کیا ہو گا اگلے سال کے آ جانے سے

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment